مدرسہ بورڈ

از: حکیم ظل الرحمن ، دہلی

آج کل دانشوران ملت کے توسط سے مرکزی حکومت کے دل میں ایک خصوصی درد اصلاح مدارس کا پیداہوگیا ہے۔ حیرت تواس بات پر ہے کہ جن لوگوں کا کوئی بچہ ان مدارس میں نہیں پڑھتا ان کو ان مدارس کی اصلاح کی فکر ہے اور جن کے بچے یہاں پڑھتے ہیں وہ بہت حد تک مطمئن ہیں کہ ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح ہورہی ہے۔ جائزہ لیاجائے تو ان دانشوران ملت کا بہت بڑا طبقہ دین سے دور ہے اور بعض تو دین بیزار بھی ہیں۔ اس مطالبے کے پس پشت دو نصب العین ہیں۔ ابتداء یہ منصوبہ ایڈوانی صاحب نے اپنے دور میں بنایاتھاجس کو اب کانگریس حکومت روبہ عمل لانا چاہتی ہے۔

(۱) مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی کا جو مطالبہ عام مسلمانوں کے نام پر کرایاجاتا ہے اس مطالبہ کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ان مدارس کے فارغ علماء ہیں۔ لہٰذا ان کو ان کی دینی روح سے جداکردیا جاناہے۔

(۲) ان کے ہزاروں گریجویٹ بے روزگار ہیں اگر ہر مدرسہ میں ایک ایک گریجویٹ بھی علوم عصریہ کے نام پر رکھ لیاجائے تو ان کی بے روزگاری دور ہوجائے گی۔

اس کے بعد ان کو یہ بھی امید ہے کہ ان مدارس کو حکومتی امدادوں کے توسط سے اس طبقہ کو مدارس میں دخل اندازی کا موقع مل جائے گا۔

اگر ان کو دینی تعلیم ہی کی فکر ہوتی تو یہ مطالبہ کرسکتے تھے کہ عصری تعلیم کے مسلم اقلیتی تعلیمی اداروں میں دینیات اسلامی کو بطور اضافی اختیاری مضمون کے طور پرپڑھانے کی اجازت دیدی جائے اور نئی تعلیمی پالیسی میں دفعہ ۸/۴ کے تحت اخلاقی اور روحانی تعلیم دینے کی اجازت ہے ثبوت کے لیے عرض کروں کہ ایک زمانے میں مڈل اسکول کا امتحان الہ آباد بورڈ کے تحت ہوتا تھا اس میں کم از کم دو اختیاری مضمون اور زیادہ سے زیادہ چار مضمون اختیاری لے سکتے تھے۔ مزید برآں نیک کام کرنے کو کوئی منع نہیں کرتا۔ میں جب فتح پور سینئرسکنڈری اسکول دہلی میں پی ٹی اے کا سکریٹری تھا اور جناب زین العابدین صاحب پرنسپل تھے میں نے پی ٹی اے کا چندہ دس روپیہ ماہانہ فی طالب علم کردیا۔ ٹائم ٹیبل میں دونوں شفٹوں میں ایک ایک پیریڈ اخلاقی اور روحانی تعلیم کے نام پر لگایا۔ اور دونوں شفٹوں میں ایک جزوقتی مدرس دینیات اسلامی کا مقرر کیا اوراس کا مشاہرہ پی ٹی اے سے ادا کیا۔ صبح کی شفٹ کو ظہر کی نماز اور شام کی شفٹ کو عصر کی نماز ادا کراکر چھٹی دی جاتی تھی۔ جہاں تک عصری علوم کا تعلق ہے ان ہی مدارس میں ایسے ادارے بھی ہیں جو زمانے کی عربی، فارسی اور دینیات کے لکچروں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ ریسرچ کا کام کرتے ہیں اورآل انڈیا ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے عربی فارسی پروگرام کے افراد مہیا کرتے ہیں۔

ندوة العلماء لکھنوٴ، جامعة الاصلاح سرائے میر، جامعة الفلاح بلریا گنج، مدرسہ عالیہ رامپور وغیرہ اسی ضمن کے ادارے ہیں۔

ان سب کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے نقش قدم پر بہت سے مدارس ہیں جو درس نظامی کی بنیاد پر چلائے جارہے ہیں جہاں تک ان مدارس میں کسی اصلاح کا تعلق ہے بہت سے مدارس رفتہ رفتہ اپنے نصاب تعلیم میں ضروری ترجیحات لارہے ہیں۔ مختلف مدارس میں انگریزی اورکمپیوٹر کی تعلیم کاانتظام ہوچکاہے، خود دارالعلوم دیوبند میں اپنے فارغین کے لیے انگریزی تعلیم کا انتظام ہے۔

مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ، مدرسہ گلزار حسینی اجڑاڑہ ضلع میرٹھ، مدرسہ ضیاء العلوم سنبھل ضلع مرادآباد میں اپنے طلباء کے لیے سینئرسکنڈری اسکول کھولے جاچکے ہیں۔ اجڑاڑہ میں کمپیوٹر سیکشن کابھی نظام قائم ہوچکاہے۔

اصلاح مدارس کے نام پر سب سے پہلی تجویز ندوة العلماء کے صدسالہ اجلاس میں محترم جناب خسروصاحب وائس جانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے پیش کی تھی اور اس وقت ان کا جواب مولانا سعیداحمد صاحب اکبرآبادی مرحوم نے دیا تھا کہ آپ ہم سے کیوں اصلاح مدرسہ کا مطالبہ کرتے ہو۔ آپ ایک مدرسہ اپنے نصاب کے مطابق عصری علوم اور دینی علوم کی شمولیت کے ساتھ قائم کرکے اس مدرسہ کی دینی افادیت ثابت کردو۔ اگر ہم مطمئن ہوگئے کہ عصری علوم کی شمولیت ان مدارس کی روح کو متاثر نہیں کرتی ہے تو ہم خود بخود انداز تعلیم کو قبول کرلیں گے۔ لیکن ہم اپنے ان مدارس میں کسی طرح بھی حکومت کی دخل اندازی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

ہم ان دانشوران ملت سے ایک بات معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آٹھویں کلاس تک یہ لوگ تقریباً سات آٹھ مضمون پڑھاتے ہیں۔

ہائی اسکول میں صرف چھ مضمون رہ جاتے ہیں۔

سینئرسکنڈری میں صرف چار مضمون رہ جاتے ہیں۔

بی- اے میں صرف تین مضمون اور ایم اے میں صرف ایک مضمون رہ جاتا ہے۔ اپنے اسکولوں میں تخفیف درتخفیف کا اصول اپنایا جاتا ہے، لیکن ہم سے کہاجاتاہے کہ آپ اپنے تمام مضامین بھی پڑھائیں اور علوم عصری بھی پڑھائیں۔ کیا عملاً یہ ممکن ہے کہ کثرت مضامین کے ساتھ دینی علم کا قدیم معیار باقی رہ جائے گا کبھی نہیں۔

دراصل جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں ان کو ان مدارس کے قیام کے اسباب اور پس منظر کا علم نہیں ہے۔ توجہ فرمائیں کہ یہ مدارس کس مقصد کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔

قرآن کریم۔ پارہ ۴/سورہ آل عمران آیت ۱۰۴ میں ہدایت کی گئی ہے کہ ”تم میں سے کچھ لوگ ضرور ایسے ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں۔ بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے“

آیت ۱۰۰۔ دنیا میں تم وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت اوراصلاح کے لیے میدان میں لایاگیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو۔

نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے خطبہ حجة الوداع میں فرمایا:

اے لوگو! میرے بعدکوئی نبی نہیں ہے اب خدا کا یہ پیغام تمہیں اور تمہارے بعد کے لوگوں کو دنیا کے انسانوں تک پہنچانا ہے۔

یہ ہے وہ بنیاد جس کے لیے یہ مدارس قائم کیے گئے ہیں۔ ذرا غور فرمائیں کہ ہم سائنس کے لوگوں سے کبھی نہیں کہتے کہ آرٹس کے مضامین پڑھاؤ۔ کامرس کے لوگوں سے کبھی نہیں کہتے کہ سائنس پڑھاؤ۔ آرٹس کے لوگوں سے کبھی نہیں کہتے کہ سائنس یا کامرس بھی پڑھاؤ وہاں ہر شے کے تخصص کی بات کرتے ہیں اورہم سے آپ فرماتے ہیں کہ اپنے دینی علوم کے ساتھ عصری علوم بھی بڑھاؤ تاکہ یہ لوگ اپنی روزی کماسکیں۔ کمال کی بات ہے کہ ان کو ہمارے دینی طلباء کی روزی کی فکر ہے جس کا وعدہ قرآن کریم میں باری تعالیٰ نے وما من دابة الا علی اللّٰہ رزقہا کہہ کر فرمادیاہے۔ جس چیز کی ضمانت باری تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی اس کی تو ہمیں فکر ہے، اور جو ڈیوٹی اللہ تعالیٰ نے ہماری لگائی ہے اس کی انجام دہی کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ذرا نظر ڈالیے کہ آپ کے لاکھوں گریجویٹ بے روزگار پھررہے ہیں ہمارا کوئی مولوی بے روزگار نہیں ملے گا۔ حسب حیثیت وہ کہیں مدرس ہوتاہے کہیں امام ہوتا ہے کہیں موذن اور کچھ بھی نہیں تو اپنے تعویذوں کے ذریعہ خدمت خلق میں مصروف ہے لاکھوں طلبہ سالانہ ان مدرسوں سے فارغ ہوتے ہیں لیکن کوئی بے روزگار نہیں ہے۔ دراصل ان حضرات کو فکر ہے کہ مولوی صاحب کے گھر میں ٹیلی ویژن کیوں نہیں ہے۔ فون کیوں نہیں ہے عمدہ فرنیچر اور رہائشی کوٹھی کیوں نہیں ہے یہ اس لیے نہیں ہے کہ اُن کوحقیقتاً ان مولوی صاحب سے کوئی ہمدردی ہے بلکہ ان کو فکر یہ ہے کہ مولوی صاحب کے گھرمیں شیطان کا داخلہ کیوں نہیں ہورہا ہے۔

ہمارے مدارس کی جو بنیادیں اور نصب العین ہے اور جوتاریخ دارالعلوم دیوبند میں واضح طور پر درج ہے وہ درج ذیل ہے:

۱- اوّل مذہبیت: دارالعلوم اور یہ مدارس بنیادی طورپر دینی ادارے اور اسلامی قوت کے سرچشمے ہیں اوراوّل سے آخر تک اسلامی شریعت کے پابند ہیں۔

۲- دوم آزادی و خود مختاری: دارالعلوم اور یہ مدارس کسی بھی طرح کی بیرونی غلامی سے آزاد ہیں۔ ان کا نظام تعلیم ان کا نظام مالیات اور اس کا نظام انتظامی سرتاسر افراد پر ہے دارالعلوم دیوبند دنیا کا پہلا تعلیمی ادارہ ہے جس کے لئے حکومت نے بارہا پیش کش کی مگر اس نے لاکھوں روپیہ کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کردیا۔

۳- ان مدارس کی مالیاتی بنیاد توکل علی اللہ پر ہے عوامی چندے اور عطیات ہی سے یہ چلائے جاتے ہیں۔

۴- سرکار کی شرکت اور امراء کی شرکت بھی زیادہ مضر معلوم ہوتی ہے۔ ان اصولوں کے افراد کی تصویر بھی ملاحظہ فرمالیجئے:

حیدرآباد ریاست میں ایک علمی ادارہ دائرة المعارف تھا۔ جس کی بہت علمی خدمات ہیں اس کے کاموں کو نظام خود دیکھا کرتے تھے۔ ایک بار جناب مولانا محمد احمد صاحب اور دارالعلوم کے دو فضلا اس ادارے سے وابستہ ہوگئے نظام ان کے کام سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا:

”ہمارے دفاتر اور اداروں کی ایک ضرورت انگریزی بھی ہے اگر دارالعلوم دیوبند اپنے نصاب میں انگریزی کی تعلیم بھی شامل کرلے تو ہم اس کی سند کو بی اے کے مماثل تسلیم کرلیں گے اور یہ تو قانونی شکل ہوگی لیکن جب تک قاسمی حضرات ملیں گے کسی بی اے کو تقرر نہیں دیں گے“

مولانا محمد احمد صاحب نے یہ تجویز اس وقت کے مہتمم جناب مولانا یعقوب صاحب کو ارسال کی مولانا یعقوب صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا جب مولانا محمد احمد صاحب رمضان کی تعطیل میں دیوبند گھر آئے توانھوں نے اپنی تجویز کا اعادہ کیا۔ تو مولانا یعقوب صاحب نے جو جواب دیا وہ درج ذیل ہے: (اس کے راوی مجھ سے مولانا منظور نعمانی صاحب مرحوم ہیں اس لیے نقل کی گستاخی کررہا ہوں)

”محمد احمد میں تمہیں بے وقوف تو سمجھتا تھا مگراتنا نہیں سمجھتا تھا۔ ہم تو پیدا ہی وہ لوگ کرتے ہیں جن کا کوئی گاہک دنیا میں نہ ہو اگر اس کا گاہک دنیا میں ہوگیاتو وہ ہمارے کام سے گیا۔“

یہ ہے قرآن کریم کی آیت ۱۰۵، اور ۱۱۰ کے حکم کی تعمیل۔ رہا اس گروہ کی روزی روٹی کا سوال تو جب خدا کی ملازمت اختیار کروگے تو روزی روٹی بھی وہ اپنے آپ دے گا اب کچھ اورمثالیں بھی ملاحظہ فرمائیں:

۲- اسی دائرة المعارف حیدرآباد سے شیخ الادب دارالعلوم دیوبند جناب مولانااعزاز علی صاحب کو ۵۰۰ روپیہ ماہانہ مشاہرہ کا آفرملا۔ جو جواب انھوں نے دیا وہ ہم سب کے لیے جوزندگی میں دنیاوی خواہشات ہی کو زندگی کااصل مقصد سمجھتے ہیں مقام عبرت ہے۔

”مدرسہ سے پندرہ روپیہ ماہانہ ملتے ہیں۔ میرا کام آٹھ نو روپیہ میں چل جاتا ہے۔ پریشان رہتاہوں کہ ان کو کہاں خرچ کروں پانچ سوروپیہ ملنے لگیں گے تو میں تباہ ہوجاؤں گا میری معذرت قبول فرمائیں۔“

۳- ان حالات میں یہ مدارس کیسی کیسی روحانی ہستیاں پیدا کرتے ہیں غور فرمائیں۔

مولانا یعقوب صاحب کے زمانہٴ صدارت میں ایک لڑکا پیالہ میں ترکاری لیتاہوا بکتا ہوا ان کے پاس شکایت لے کر آیا کہ کس قدر گھٹیا قسم کا کھانا طلبہ کو ملتا ہے،مولانا یعقوب صاحب نے حیرت سے فرمایا کہ کیا یہ لڑکا دارالعلوم کا طالب علم ہے۔ یہ دارالعلوم کا طالب علم نہیں ہوسکتا ہے۔ لوگوں نے جواب دیا حضرت یہ تو دارالعلوم کا طالب علم ہے اور فلاں کمرے میں مقیم ہے۔ مولانا نے فرمایا تحقیق کرو یہ دارالعلوم کا طالب علم نہیں ہے تحقیق پر معلوم ہوا کہ وہ دارالعلوم کا طالب علم نہیں تھا۔ اس کا ہم نام طالب علم تھا جو مدرسہ چھوڑ کر چلاگیا اوراب اس کی جگہ یہ رہ رہا تھا۔ لوگوں نے پوچھا حضرت آپ نے کس طرح جانا کہ یہ دارالعلوم کا طالب علم نہیں ہے فرمایا۔

ایک زمانہ میں میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک کنواں ہے جو دودھ سے بھرا ہے رسول کریم اس سے دودھ تقسیم فرمارہے ہیں اور لوگ اس میں سے بھربھر کر لے جارہے ہیں کوئی مشکیزہ بھررہا ہے، کوئی گھڑا اور کوئی لوٹا، جولوگ اس دودھ کو لے کر گئے اس سب کی شکلیں میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ میں نے اس خواب کی تعبیر یہ نکالی ہے کہ کنواں دارالعلوم ہے، دودھ درس حدیث ہے، تقسیم کنندہ اس دارالعلوم کے اساتذہ نائبین رسول ہیں اور دودھ لے کر جانے والے دارالعلوم کے طلبہ ہیں۔ ان تمام افراد میں یہ لڑکا نہیں تھا جس کی بنا پر میں نے یہ کہا تھا کہ یہ لڑکا دارالعلوم کا طالب علم نہیں ہے۔

۴- مزید سنئے:

موجودہ سہ درہ کی تعمیر کے سلسلے میں بعد نماز عشاء اساتذہ اور منتظمین میں مشورہ ہورہاتھا کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ طے ہوا کہ صبح بعد فجرپھر غور ہوگا۔ مولانا رفیع الدین صاحب فرماتے ہیں کہ رات کو خواب میں رسول اکرم کو دیکھا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نشان لگادیے ہیں ان جگہوں پر ستون اٹھالیے جائیں۔ صبح فجر کے وقت جاکر دیکھا تو نشان لگے ہوئے تھے۔ مولانا نے یہ بہ آواز بلند فرمایا اب کسی مشورہ کی ضرورت نہیں رسول اللہ نے فیصلہ فرمادیا ہے۔ اب بتائیے کہ کیاآپ کے نئے علوم عصریہ کے دینی ادارے یہ افراد پیدا کرسکیں گے۔

۵- اب دو مختلف النوع نصاب کے اداروں کا فرق بھی ملاحظہ فرمالیں حالانکہ دونوں ادارے دینی ہیں۔ مگر ایک میں کسی حد تک دنیاوی ضروریات بھی ملحوظ ہیں۔ اگرچہ وہ بھی ضروریات زندگی ہیں، یعنی ندوة العلماء لکھنوٴ۔

مولانا اعزاز علی صاحب شیخ الادب دارالعلوم دیوبند ایک بار ندوہ تشریف لے گئے۔ وہاں ہر چیز کو دیکھا لوگوں نے معلوم کیا کہ دارالعلوم اور ندوہ میں آپ نے کیافرق محسوس کیا آپ نے فرمایا:

آپ جب ندوہ کے طالب علم سے اعزاز علی کا مکان معلوم کرلیں گے تو وہ آپ کو صحیح طور پر بتادے گا کہ اس سڑک پر بجلی کے دو کھمبوں کے بعدالٹے ہاتھ پر جو گلی ہے اس میں سیدھے ہاتھ پر چوتھا مکان اعزاز علی کاہے اور آپ بالکل آسانی سے اعزاز علی کے مکان پر پہنچ جائیں گے۔

لیکن جب یہی سوال آپ دارالعلوم کے طالب علم سے کریں گے تو وہ آپ کو کچھ نہیں بتائیگا، بلکہ آپ کو ساتھ لے کر میرے گھر تک پہنچادے گا۔

ندوة العلماء کے علمی معیار سے کس کو انکار ہوسکتا ہے لیکن کیاندوہ ایک بھی حسین احمد پیدا کرسکا، ایک بھی شبیر احمد عثمانی پیدا کرسکا، ایک بھی مفتی عزیز الرحمن پیدا کرسکا اگر نہیں تو کیوں۔ وجہ صاف ہے وہاں اس چیز کافقدان ہے جسے قرآن کریم نے ذکر اوراحسان سے تعبیر کیاہے۔

۲- ایک مثال اور غور فرمائیں سرسید مرحوم نے نیک نیتی سے مدرسة العلوم قائم کیا تھا عصری علوم کے ساتھ دینیات اسلامی کا مضمون لازمی رکھا تھا۔ لیکن کیا اس دورمیں عصری علوم کے ماہرین دینی مزاج لے کرنکلے۔ مجبوراً جامعہ ملیہ اسلامیہ قائم ہوا جس میں آزادی سے قبل تک ایک حد تک اسلامی مزاج اور اسلامی تہذیب تھی۔ آزادی کے بعد انتظام کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں آئی انھوں نے جب ادارے سے لفظ اسلامی حذف کرنے کی تجویز رکھی تو حسن اتفاق سے گاندھی جی کی شخصیت بانیان ادارہ میں سے تھی انھوں نے فرمایا کہ اگرجامعہ ملیہ اسلامیہ سے لفظ اسلامیہ نکال دیا گیاتو اس ادارے سے وہ اپنا تعلق توڑدیں گے اور آج وہی حال ہوگیا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نام ہے۔

جا-میاں- مل- لیا- اسلام- یاں- اب تو یہاں اسلامیات کا حال یہ ہے کہ درسی کتاب میں لکھا ہے کہ لیلة القدر کی عبادت ایک ہزار راتوں کی عبادت کے برابر ہوتی ہے جبکہ قرآن کریم نے اسے ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر بتایا ہے۔ کسی کو احساس تک نہیں ہے کیونکہ اب یہاں طلباء اوراساتذہ کی نیت ہی عصری علوم کے ماہرین بنانے کی ہوتی ہے۔ عربی کامقولہ ہے الناس علی دین ملوکہم۔ اس پورے ساٹھ سالہ دور میں کوئی بھی وائس چانسلر علاوہ ڈاکٹر ذاکرحسین صاحب کے دینی مزاج کا نہیں آیا ہے تو کہاں سے دینی مزاج پیدا ہوتا۔

جو حضرات ان مدارس کی اصلاح کی باتیں کرتے ہیں آخر وہ حکومت سے یہ مطالبہ کیوں نہ کرتے کہ اقلیتی مسلم اداروں میں دینیات کی تعلیم ان کے اپنے والدین کے اخراجات کی بنیاد پر بطور مزید اختیاری مضمون پڑھانے کی اجازت دیدی جائے اور یہ اجازت نئی تعلیمی پالیسی کے تحت ضابطہ ۸/۴ کے تحت اخلاقی اور روحانی تعلیم کی اجازت کے نام پر ملتی ہے بلکہ موجود ہے اوریہ اجازت جونیئرہائی اسکول سے بی اے تک دیدی جائے تومسئلہ خود بخود حل ہوجائیگا۔

میرے محترم مدرسوں میں جو طبقہ پڑھنے آتا ہے اس میں تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی۔ یہ وہ طبقہ ہے جن کے گھروں میں وافر کھانا نہیں ہوتا پہننے کو مناسب کپڑے نہیں ہوتے اورپیروں میں جوتے نہیں ہوتے۔ یہ غریب مدارس کے اساتذہ عوامی چندوں کی بھیک۔ زکوٰة، خیرات اور صدقات کی آمدنی حاصل کرکے ان بچوں کو مفت کھانا، مفت کپڑے، مفت کتابیں اور دیگر ضروری اخراجات کی کفالت کرتے ہیں۔ اگر یہ مدارس ان بچوں کو نہ اپناتے تو یا تو یہ بچے مزدوری کا شکار ہوتے یا مجرمانہ گروہ کے رکن بن جاتے۔ یہ مدارس ہی ہیں جو انہیں انسان بناتے ہیں اپنے انسان بنانے کے جوکارخانے حکومت کے تھے یعنی اسکول وہاں تو اب حال یہ ہے کہ

اب کسی پیڑ پر لگتے نہیں اخلاق کے پھل

زندگی تھک گئی اس بیج کو بوتے بوتے

بہار میں ایک مدرسہ ہے جہاں ۷۰ بچے غیرمسلم پڑھتے ہیں۔ جب وہاں آرایس ایس کے لوگوں نے جاکر ان کے والدین سے کہاکہ وہ اپنے بچوں کو ان دوسرکاری اسکولوں میں بھیجیں جو اس گاؤں میں موجود ہیں تو ان کا جواب تھا ہم تو اپنے بچوں کواسی مدرسہ میں بھیجیں گے۔ مولوی صاحب بڑے پیار سے پڑھاتے ہیں۔ اخلاق سکھاتے ہیں اورکوئی بھیدبھاؤ نہیں کرتے“ یہ لوگ اپنا سا منھ لے کر چلے آئے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے مدارس کے دورازے ہرمذہب کے لیے کھلے ہیں۔ خود میرے ساتھ دارالعلوم میرٹھ میں درجہ منشی سے ایک صاحب رام چندرفارسی پڑھتے تھے۔

مدارس کے نصاب اور طریقہٴ تعلیم میں اگر کسی تبدیلی کی ضرورت ہے تواس کے لیے کسی سرکاری بورڈ کی ضرورت نہیں ہے۔ علماء حسب ضرورت اپنے اداروں میں مائل بہ اصلاح ہیں سرکاری بورڈوں کے تحت مدارس کا حال دیکھنا ہوتو یوپی میں عربی فارسی بورڈ اور بہار میں شمس الہدیٰ بورڈ کے مدرسوں کا حال دیکھو تو، اکثریت ان مدارس کی دینی روح سے محروم ہے اور اساتذہ اپنے فرائض کے احساس سے غافل ہیں اور اکثر خوف خداوندی سے بھی محروم ہیں ہروقت ان کے سامنے اپنے مطالبات ہوتے ہیں اپنی ذمہ داریاں نہیں۔

اس مسئلہ کا واحدحل یہ ہے کہ حکومت خواہ وہ مرکزی ہو یا صوبائی چند بڑے شہروں میں اپنے معیار کے مطابق مدرسے بطور نمونہ قائم کرکے اور اس کی خوبیوں اورمعیار تعلیم کی بنیاد پر دوسرے اداروں کو رضاکارانہ قبول کرنے کی ترغیب دے لیکن کسی مدرسہ کے انتظام وانصرام میں دخل اندازی نہ کرے۔ بہتر چیز ہوگی تو لوگ خود بخود قبول کرلیں گے۔

دوسری شکل یہ ہے کہ مدارس کے درجہ فوقانیہ کی سند کو جونیئرہائی اسکول کے برابر تسلیم کرلیا جائے اوراس کی بنیاد پر ان طلباء کو ہائی اسکول میں داخلہ کا مجاز قرار دیاجائے تاکہ جو بچے مدارس کے فوقانیہ درجے کے بعد دنیاوی عصری تعلیم کی طرف جانا چاہیں وہ وہاں چلے جائیں وہاں بھی اسلامیات کو ایک مزید امتیازی مضمون کا درجہ دلایا جائے آخر یونیورسٹیوں میں بھی تواسلامیات کا شعبہ ہوتا ہے۔

ایک تیسری شکل اور ہے فارغین مدارس کے لیے خود حکومت ایسے دوسالہ یا تین سالہ نصاب کے ادارے قائم کرے جہاں انگریزی، سائنس، کمپیوٹر، اور دیگر ٹیکنیکل تعلیم کا انتظام ہو۔ اور ایسے اداروں میں تعلیم زیادہ قیمتی نہ ہو۔ مدارس سے فراغت کے بعد جو طلبہ ان اداروں میں داخلہ لینا چاہیں، وہ داخلہ لے سکیں۔ یہ صورتحال جامعہ ہمدرد ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کالجوں میں موجود ہے C.C.I.M نے بعض مدارس کی اسناد کو سینئرسکینڈری کے برابر تسلیم کیاہے اور وہ B.U.N.S کے پری طب درجہ میں داخلے کے مجاز ہیں۔

مجھے امیدہے کہ حکومت کے ذمہ داران ان مندرجہ بالا تینوں صورتوں پر غور فرمائیں گے اورمدارس کی خودمختاری کو محفوظ رہنے دیں گے۔

***